Friday, February 1, 2013

Ahmed Jamal Nizami column on 02-02-2013 on Indo Pak relations


کالم نگار | احمد جمال نظامی


نئے سال کا پہلا مہینہ پاک بھارت تعلقات میں کسی مثبت پیش رفت کا باعث تو نہیں بن سکا ۔وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم بھارت کیلئے پاکستان کے پسندیدہ ملک ہونے کا نوٹیفکیشن کرانے میں تو کامیاب نہیں ہو پائے البتہ کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے جوانوں کی نعشیں گرنے کے نتیجے میں کشیدگی میں اس قدر اضافہ ضرور ہو گیا تھا کہ خطے پر جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا بھارت پاکستان سے دس گنا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے 1971ءکے حالات پیدا نہیں کر سکتا۔ ماہ جنوری میںکنٹرول لائن پر کشیدگی پیدا ہونے کے بعد بھارت کی طرف سے آزادکشمیر کو بزورقوت فتح کرنے کی باتیں بھی کی گئیں اور اس وقت کے اشارے بھی سامنے آئے کہ بھارت پاکستان پر ایٹمی جنگ مسلط کر سکتا ہے جس پر پاکستان کے وزیردفاع نوید قمر نے نہایت دلیرانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت شوق سے پاکستان پر جنگ مسلط کر کے دیکھ لے، ہم ہر قسم کی جنگ کیلئے تیار ہیں۔ پاک آرمی کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے گذشتہ ماہ کے آخری دنوں میں 1999ءکی کارگل کی جنگ بارے انکشاف کیا تھا کہ اس جنگ کا آغاز کرنے کیلئے جنرل پرویزمشرف نے ملٹری کور کمانڈرز کی اکثریت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ انکے علاوہ صرف تین جرنیلوں نے کارگل جنگ کی منصوبہ بندی میں حصہ لیا تھا جواباً جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ قوم راجہ ظفرالحق اور چودھری شجاعت سے قرآن پرپوچھ لے، کارگل کی جیتی ہوئی جنگ کو کس نے شکست سے تبدیل کیا۔ جنرل پرویزمشرف کا یہ دعویٰ ہے کہ میاں محمد نوازشریف نے امریکہ میں کلنٹن کے پاس جا کر جنگ بندی کرا دی اور پاکستان کو فتح کئے گئے علاقے خالی کرنے پڑ گئے۔ میاں محمد نوازشریف اس وقت ملک کے وزیراعظم تھے اور وہ امریکی صدر کے پاس اس لئے گئے تھے بھارت نے امریکہ کے ذریعے ایٹمی جنگ شروع کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔ جنرل(ر) شاہد عزیز نے ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ کارگل کی جنگ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ۔ پاکستان کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ کشمیر کا تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائیگا۔
کشمیر کا مسئلہ حل کرنے اور پاکستان کے دریا¶ں کو بھارت کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرنے کیلئے کسی نہ کسی مرحلے پر ایک بڑی جنگ سے گزرنا ہو گا۔ میاں محمد نوازشریف پاکستان کے وہ وزیراعظم تھے جنہوں نے ہر قسم کے دبا¶ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا لیکن جب کارگل ایڈونچر پر بھارت کا سیا چن سے ناطہ ختم ہو گیا اور اس نے امریکہ سے ایٹمی جنگ کا آغاز کرنے کی اجازت چاہی تو پاکستان کے وزیراعظم نے امریکی صدر کے پاس جا کر یکطرفہ جنگ بندی قبول کر لی اور تمام کی تمام جنگ جس میں دونوں ممالک کے فوجیوں اور اسلحہ بارود کا بہت سا ضیاع ہو چکا تھا اور جنگ بندی کے حوالے سے سرحدی پوزیشن پاکستان کے حق میں تھی، پاک فوج کے فتح کئے گئے علاقوں سے واپسی نے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے کی گئی پیش رفت بے نتیجہ کر دی۔ بھارت نے مئی 1998ءمیں ایٹمی دھماکوں کے بعد اسی ماہ کے آخر میں بھی پاکستان پر ایٹمی جنگ مسلط کرنے کے حالات پیدا کر دیئے تھے اور یہ بھارت کے پیدا کردہ حالات کا نتیجہ تھا کہ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے میاں محمدنوازشریف کو ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کو یہ پیغام دینا پڑا تھا کہ بھارت ایٹمی اسلحہ پر مت اترائے، یہ ایٹم بم پاکستان کے پاس بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے جنرل محمد ضیاءالحق نے آنجہانی راجیوگاندھی کو 1984ءکی مشہور و معروف کرکٹ ڈپلومیسی کے وقت بھی یہ بات جتلا دی تھی کہ پاکستان بھی ایٹم بم اور ایٹمی میزائل بنا چکا ہے۔ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے اور وادی کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے اور پاکستان کو اگر مملکت خداداد کی شہ رگ کو بھارت کے پنجہ استبداد سے آزاد کرانا ہے تو اسے بھارت سے جنگ کرنا ہو گی۔ قرآن پاک نے مسلمانوں کو اس قسم کی صورتحال میں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور عصرحاضر کے گھوڑے پاکستان کے پاس اس کے ایٹمی ہتھیار ہیں۔
بھارت ایک بدطینت پڑوسی ملک ہے اور پاکستان کو آج نہیں تو کل، جب بھی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا ہو گا۔ بھارت کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ میں کودنا پڑیگا۔ ماہ جنوری میں جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت میں کرکٹ کھیل کر اور بھارت کے میدانوں میں فتح کے جھنڈے گاڑ کر واپس پاکستان آئی تو اچانک کنٹرول لائن کے دونوں طرف فوجی جوانوں کی ہلاکت کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ پہلے کنٹرول لائن کے اس طرف دراندازی کر کے پاکستان کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا اور ایک نائیک اسلم جو جاں بحق کر دیا گیا اور پھر بھارت کے دو فوجیوں کی ہلاکت اور ایک فوجی کی گردن کاٹ لئے جانے کی بے بنیاد خبر آئی۔ اس واقعہ میں کون ملوث تھا۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کے کسی فوجی کو لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف جا کر ہلاک کرنے کی واشگاف انداز میں تردید کی گئی تھی۔ بھارت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اس واقعہ کو شرمناک حرکت قرار دیتے ہوئے جے پور میں ایک خطاب کے دوران پاکستان کو ایک غیرمستحکم اور خطرناک پڑوسی سے تعبیر کیا۔ کیا پاک فوج کے جوانوں نے کنٹرول لائن کے اس طرف جا کر کسی بھارتی فوجی کی گردن کاٹی تھی۔ یہ بات پاک فوج کے جوانوں کی تربیت کا حصہ نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت فوج میں شامل شیوسینا کے سیاسی پیروکاروں کی حرکت تھی۔ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت پر کوئی ایسی کارروائی نہیں کر سکے تھے جس سے دونوں ممالک میں اچھے تعلقات کی پیدا ہونے والی فضا کو مسموم کیا جا سکتا۔ بھارت کے اپنے فوجیوں نے اپنے دو جوانوں کو ہلاک کر کے ان دونوں کی یا ان میں سے کسی ایک کی گردن کاٹ کر اس کا سر منہ غائب کر کے اس درندگی کا ملبہ پاک فوج کے جوانوں پر ڈال دیا۔ اس امر کی گواہی چند دنوں بعد بھارتی وزیرداخلہ سوشیل کمار نے اس انکشاف کے ذریعے کر دی کہ بھارت میں شیوسینا اور بی جے پی مسلمانوں کے قتل و خون اور پاکستان دشمنی کے واقعات میں ملوث رہتی ہیں۔ بعد میں بھارتی سیکرٹری داخلہ اور بھارتی وزیرخارجہ نے بھی اس امر کی توثیق کر دی کہ بھارت میں انتہاپسند ہندو¶ں کو دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو نذرآتش کرنے اور تین درجن سے زائد پاکستانی مسافروں کو سمجھوتہ ایکسپریس کو جلا کر ہلاک کرنے کے معاملہ میں بھارت کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور یہ بات طشت ازبام ہو گئی ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ایک حاضر سروس فوجی افسر کی قیادت میں بھارتی افواج میں شامل ہندو انتہاپسندوں نے کیا تھا۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو کنٹرول لائن پر بھارتی جوانوں کی ہلاکت اور ان کی گردنوں کے غائب ہونے کے حوالے سے بھارت کے جوانوں اور فوجی افسروں سے ہی تحقیقات کرنی چاہئیں۔ یہ سب شیوسینا اور بی جے پی کے حامی بھارتی فوجیوں کا ہی کیا دھرا ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین خوشگوار اور اچھے تعلقات استوار ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی کے نتیجے میں پاکستان کی وزارت دفاع نے اقوام متحدہ کو ثالث بنانے کی پیشکش کی مگر بھارت پر اس قدر جنگی جنون طاری رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے جو اقدامات ہو چکے تھے ان سے بھی پسپائی اختیار کر لی گئی۔ ویزہ پالیسی میں جو نرمی پیدا کی گئی تھی اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ پاکستان کیخلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کیا گیا اور یہ بھی اعلان کر دیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے امکانی خطرات کے پیش نظر بھارت 18ارب ڈالر مالیت کے 189جدید رافیل لڑاکا طیارے بھی خرید رہا ہے۔ پاکستان نے کنٹرول لائن پر بھارت کے خلاف کوئی بھی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی۔ بھارتی فوج کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کے ذریعے سات آٹھ دنوں میں تین مختلف واقعات میں پاکستان کے تین جوانوں کو شہید کیا گیا۔ جب فلیگ میٹنگ میں پاکستان کے عسکری حکام نے انڈین آرمی چیف کو بھارتی فوجیوں کی گنیں اور خنجر دکھائے جو وہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان کی طرف سے دفاعی کارروائی کا آغاز ہونے پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے بوکھلاہٹ میں انڈین آرمی چیف نے بڑھکیں لگانا اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ لہٰذا انڈین آرمی کے لوگ لاتوں کے بھوت ہیں یہ باتوں سے نہیں مانتے، انہیں دوستی قبول نہیں ہے لہٰذا پاکستان کے حکمرانوں اور عسکری ارباب اختیار کو بھارت کی ہر کارروائی کے حوالے سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی روایت پر چلتے رہنا چاہیے۔ پاکستان دشمنی ان کی سرشت میں اس قدر شامل ہے کہ لوک سبھا کے ایک رکن بھارت کے وزیرداخلہ سوشیل کمار پر عدالت میں کیس کر دیا ہے کہ اس نے بھارت میں انتہاپسند ہندو¶ں کے تربیتی کیمپوں کا انکشاف کر کے بھارت کے راز افشا کر دیئے ہیں۔ بھارت گذشتہ پندرہ برسوں میں کنٹرول لائن پر پکڑے جانیوالے ایک درجن پاکستانی جوانوں کی ہلاکت کا بھی اعتراف کر چکا ہے اس کیخلاف پاک افواج اور پاکستانی قوم دونوں ہروقت جنگ کیلئے تیار رہنا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment