Friday, February 1, 2013

Muhammad Akram Choudhary column on 02-02-2013 on Supreme Court of Pakistan


کالم نگار | محمد اکرم چوہدری


عجیب گورکھ دھندہ ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ ملیا میٹ ہوجائیگا ایسا لگتا ہے کہ جیسے جمہوریت کی دعویدار کچھ قوتیں خود اپنے ہاتھوں سے جمہوریت کو قتل کرناچاہتی ہیں اور دوسری طرف کچھ قوتیں ہیں جو ہرحال میں جمہوریت کی بقاءچاہتی ہیں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سپریم کورٹ میں پچھلے کئی سالوں سے جاری تصادم اب ایک واضح شکل اختیار کرتاجارہا ہے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت لگنے کے بعد چیئر مین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کو بھی توہین عدالت کا سامنا ہے اور سپریم کورٹ انہیں اس حوالے سے طلب کرچکی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہر حال میں انصاف اور قانونی کی سپر میسی ثابت کرنے کا تہیہ کرلیا ہے چیئر مین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کا صدر زرداری کو لکھے جانے والا خط لگتا ہے آنیوالے دنوں میں ان کیلئے وبال جان ثابت ہوگا سپریم کورٹ کی جانب سے خط کے مندرجات پر سخت ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے کام میں کسی کو بھی نہ مداخلت کی اجازت دیگی اور نہ ہی خود پر اثر انداز ہونے کی کسی بھی کوشش کو پایہ تکمیل تک پہنچنے دیگی ہم پانچ سال سے حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری چپقلش کو دیکھ رہے ہیں اور اب یہ چپقلش اپنے نقطہ¿ عروج پر پہنچ چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک فیصلہ کن گھڑی کی جانب بڑھ رہے ہیں سپریم کورٹ کے معزز ججز کے لہجے میں موجودہ استحکام اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ آئین اور قانون کی عملداری کے حوالے سے ایک واضح ذہن بناچکی ہے ایڈمرل فصیح بخاری کی جانب سے سپریم کورٹ پر اثرانداز ہونے اور انہیں بلیک میل کرنے کی سازش تو بے نقاب ہوچکی ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ ساری زندگی اعلیٰ واضع زندگی گزارنے والے ایڈمرل صاحب سپریم کورٹ کی سختی کس حد تک جھیل پائیں گے انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہوجاتی ہے اس کارروائی کو اس نظر سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ حکومت اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کا تمسخر اڑانا ایک معمول بن گیا ہے۔ اور اس بات کو محسوس کیاجارہا ہے کہ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو پاکستان میں عدالتی مذاق بن کے رہ جائیں گی اس سے قبل بھی بارہا دیکھا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بھپتیاں کسی جاتی رہی ہیں بابر اعوان سے لیکر یوسف رضا گیلانی اور رحمان ملک اعلیٰ عدلیہ کو انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں لیکر ریمارکس دیتے رہے ہیں خیر بابر اعوان اور یوسف رضا گیلانی کی کہانی تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے لیکن ابھی بہت سے انجام بہت سے لوگوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا تھا کہ بعض قوتیں انتخابات ملتوی کراناچاہتی ہیں اور اسلام آباد میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی بازگشت زبانِ زد عام ہے خود حکومت کی اہم شخصیت سینیٹر رضا ربانی آن ریکارڈ یہ بات کہہ چکے ہیں کہ انتخابات ملتوی کروا کر تین ساڑھے تین سال کیلئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لانے کی تیاریاںکی جارہی ہیں ایسے میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ کہنا انتخابات ایک گھنٹے کیلئے بھی ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی جہاں یہ پیغام جمہوریت دشمن قوتوں کیلئے ایک واضح مقام رکھتا ہے وہیں اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے گو فوج اس بات کا برملا اظہار کرچکی ہے کہ اسکا اس ساری صورتحال اور جوڑ توڑ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ جمہوریت کے ساتھ ہے لیکن لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انتخابات ملتوی کرانے کی کوششوں کے پیچھے مضبوط شخصیات کا ہاتھ ضرور ہے اس ساری صورتحال میں سپریم کورٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان کے تمام معاملات اس وقت سپریم کورٹ کے گرد گھوم رہے ہیں مشکلات اور مصائب کی اس گھڑی میں سپریم کور ٹ پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور وہ اس سے با احسن طریقے سے عہدہ برا ہورہی ہے سپریم کورٹ نے پاکستان کے مختلف سلگتے ہوئے مسائل پر اور انکے حل کیلئے واضح کردارادا کیا ہے گو بلوچستان کی حکومت مظلوموں کے دھرنے کے بعد ختم ہوئی اوروہاں گورنر راج لگانا پڑا تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا وہاں کی کرپٹ حکومت کی کرتوتوں کو سامنے لائی جسکے بعد وہاں پر نا اہل حکومت کے رہنے کا جواز تقریباً ختم ہوگیا ہے اسی طرح کراچی کی صورتحال پر سپریم کورٹ نے نہ صرف از خود نوٹس لیتے ہوئے صورتحال کا پوسٹ مارٹم کیا بلکہ وہاں موجود ناسوروںکی نشاندہی بھی کی ۔
میرا سوال یہ ہے کہ اگر بد انتظامی ،نا اہلی پر بلوچستان کی حکومت ختم کی جاسکتی ہے تو سندھ کی حکومت میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جسے کچھ نہیں کہاجاسکتا یا سندھ کی حکومت کوئی مقدس گائے ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر سپریم کورٹ نے کراچی کی صورتحال پر کوئی کمیشن بنایا ہے تو اسے کام بھی کرناچاہئے اور اگر وہ کام نہیں کر رہا یا کرپا رہا تو سپریم کورٹ کو اس پر ایکشن لیناچاہئے کیونکہ یہی موقع ہے کہ ہمیں کراچی پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ہمارے نرالے اور انوکھے وزیر داخلہ رحمان ملک تو یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا چکے ہیں کہ کراچی ہاتھ سے نکل رہا ہے کوئی ان سے پوچھے کہ جناب والا اگر کراچی ہاتھ سے نکل رہا ہے تو کس کے ہاتھ میں اسکا ہاتھ ہے؟کون ذمہ دار ہے جو کراچی کو اپنے ہاتھ سے نکلنے سے روکے۔ کیا اس کیلئے بھارت سے درخواست کی جائے یا اوباما کے قدموں میں سر رکھا جائے ۔کیا کیاجائے؟کیا یہ مان لیاجائے کہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمیں رحمان ملک جیسے نا اہل غیر سنجیدہ وزیر ملے‘ جنہیں کراچی کی تباہی پر دکھ ہے نہ پشاور کے دھماکوں پر، کراچی خون خون ہے میرے اہل کراچی آج بے امان ہیں،کراچی کو اپنی جاگیر سمجھنے والی ایم کیو ایم بھی بے حس، لوگوں کے مرنے کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ایک ایم کیو ایم سے کیا گلہ لگتا ہے کہ پوری قوم ہی سوگئی ہے۔شاید اسے تب ہوش آئے جب چڑیاں کھیت چُگ بیٹھیں۔جب ہمارے پاس ماسوائے پچھتاوے کے کچھ نہ بچے،ہمیں اٹھنا ہوگا جاگنا ہوگا کہیں دیر نہ ہوجائے،لیکن بے حسی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف ہمارا کراچی ہمارے بزنس کا جب آگ اور خون میں لتھڑا جارہا ہے تو دوسری قومی قیادت کو اپنی اپنی پڑی ہے۔مجھے آنے والے دنوں میں اس شہر میں شیعہ سنی فسادات کی بھیانک سازش کی بیل منڈھے چڑھتے نظر آرہی ہے،سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ رحمان ملک کو طلب کرکے ان سے پوچھے کہ ان کے پاس کراچی کے حوالے سے کیا معلومات ہیں اور انہوں نے کراچی کے ہاتھوںسے نکلنے والی بات کس بنیاد پر کی ہے۔
جیسا میں نے اپنے کالموں سے پہلے عرض کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا وطیرہ ہے کہ وہ معاہدوں کی پروا نہیں کرتی۔اس نے ایک بار پھر اپنا ریکارڈ بہتر کیا اور اعلامات یہی ہیں کہ وہ مولانا طاہر القادری کو غچہ دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور انہیں 10رکنی ہیوی ویٹ ٹیم کے ہاتھوں بے وقوف بنادیا گیا ہے۔آپ دیکھ لیجئے گا کہ حکومت مولانا طاہر القادری کو مذاکرات کے جال میں پھنسائے رکھے گی لیکن ایک بات پر بھی عمل نہیں ہوگا۔میری اطلاعات یہ ہیں کہ طاہر القادری اس حوالے سے جلد سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والے ہیں۔وہ سپریم کورٹ سے استدعا کرتے نظر آئینگے کہ حکومت نے پوری قوم کے سامنے ان سے معاہدہ کیا لیکن اب وہ ان پر عمل نہیں کر رہی۔ اس طرح وزیراعظم سمیت حکومتی وفد کے 10ارکان امین رہے نہ صادق ، آئین کے آرٹیکل62اور63 کے تحت جو شخص صادق اور امین نہیں وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں رہ سکتا۔ اس ساری صورتحال سے ایک بار پھر بہت سے شکوک جنم لیتے ہیں کہ مولانا کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔کیا وہ کسی غیر ملکی اشارے پر یہ سارا کھیل کھیل رہے ہیں۔وہ اس سسٹم کو کیوں ڈی ریل کرناچاہتے ہیں۔سوال ہی سوال ہیں لیکن مسائل مشکلات اور دہشت گردی کی دھند میں کچھ ہی صاف نظر نہیںآرہا۔مسائل کا حل نظر آرہا ہے نہ سیاست دانوں کے اصل چہرے۔

No comments:

Post a Comment