Friday, February 1, 2013

Bushra Rahman column on 02-02-2013


کالم نگار | بشری رحمن


ہفتے کے روز قومی اسمبلی کی کارروائی روک کر اسوہ¿ حسنہ پر اظہار خیال کیا گیا حالانکہ تاریخ اسلام میں 12 ربیع الاول کی جو اہمیت ہے اس سے کوئی بھی لاعلم نہیں ہے۔ پورے ہجری کیلنڈر میں سب سے بڑا دن 12 ربیع الاول ہے۔ پورے پاکستان میں اس دن کو روشنیوں اور رنگوں سے سنوار کر منایا گیا۔ اس روز سرکاری طور پر چُھٹی بھی کی گئی، خصوصی نمبر بھی نکالے گئے اور خاص لوگوں کے بیانات بھی جاری ہوئے۔ البتہ قومی اسمبلی میں یہ خوبصورت کام پہلی مرتبہ ہوا۔
پاکستان معرض وجود میں آ چکا تھا اور ہم سکولوں میں پڑھ رہے تھے تب ہماری چھٹیاں اسلامی کیلنڈر کے مطابق ہوتی تھیں یعنی عیدین کے علاوہ شعبان میں باقاعدہ شب بارات کی چھٹی ہوتی تھی۔ رجب میں ہمیشہ 27 رجب المرجب کو یوم معراج النبی کی چُھٹی ہوتی تھی۔ ایک اور چُھٹی آخری چہارشنبہ کی بھی ہوتی تھی۔ ہمارے علاقے میں جسے اب نیا نیا بہاولپور جنوبی پنجاب کا نام دیا گیا ہے۔ آخری چہارشنبہ کی چُھٹی کو چُوری والی عید کہتے تھے۔ روایت ہے کہ نبی کریم اس روز صحت یاب ہوئے تھے اور خوشی منائی گئی تھی۔ ہمارے ہاں کی بڑی بوڑھیاں آپ کے صحت یابی کے دن کو عید کی طرح مناتی تھیں، اس روز گھی والی میٹھی روٹیاں پکا کے ان کی چُوری بنائی جاتی تھی جس کے اندر تازہ مکھن، ملائی اور چینی ڈال کے اسے مزید لذیذ بنایا جاتا تھا پھر وہ چُوری امیر غریب سب میں تقسیم کی جاتی تھی۔ ہماری ایک بوا¿ جی گاﺅں میں رہتی تھیں اور ہم سارا سال ان کی ارسال کردہ چُوری کا انتظار کیا کرتے تھے --- کیلنڈر تو نہیں بدلے مگر وقت کے ساتھ ساتھ امپورٹڈ کلچر نے بہت سے مواقع کی اہمیت کو کم کرنا شروع کر دیا۔
جب یہ تمام دن ثقاقتی سطح پر منائے جاتے تھے اور اس دن باقاعدہ چُھٹی کر دی جاتی تھی تو بچوں کو خود بخود علم ہو جاتا تھا کہ ہماری تاریخ میں ایسے دنوں کیا اہمیت ہے اور گھروں کے اندر ایسے خوبصورت دنوں کو کس طرح منایا جاتا ہے۔ جب تک ہم سکول اور کالج میں پڑھتے رہے 15 شعبان کی ہمیشہ چُھٹی ہوتی رہی، رات کو لوگ نوافل پڑھتے تھے اور صبح کو روزہ رکھتے تھے اور یہ رسم مذہب کے ساتھ ساتھ ثقافت کا حصہ بھی بن گئی تھی۔ بچے بھی اپنے ماں باپ کی دیکھا دیکھی نوافل بھی پڑھتے تھے، رات بھر جاگتے تھے اور صبح روزہ رکھتے تھے۔ 27 رجب کو بھی اس لئے چُھٹی کر دی جاتی تھی کہ رات لوگ عبادت میں گزارتے اور دن کو روزہ رکھتے تھے۔ اسی طرح اور بہت سے دن ہیں جن کی اہمیت مسلمہ ہے۔ رفتہ رفتہ ایسا ماحول بنتا گیا کہ بعض مذہبی دنوں اور تہواروں کی اہمیت سے انکار کر کے چُھٹیاں منسوخ کر دی گئیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ باہر سے آمدہ دنوں کو منانے کی باقاعدہ رسم شروع کر دی گئی۔
مثلاً ویلنٹائن ڈے کا ہمارے ہاں نہ کوئی تصور تھا نہ کوئی افادیت مگر اس دن کو بڑے کرّوفر کے ساتھ پاکستان کے اندر منانے کی رسم شروع کر دی گئی۔ اس کے علاوہ بھی آئے دن کوئی نہ کوئی نیا شوشہ سُننے کو ملتا ہے یعنی 365 دنوں کو اقوام مغرب نے نام دے کر تقسیم کر رکھا ہے، کبھی عالمی یومِ مادر آ جاتا ہے۔ یہ دن تو ان ملکوں میں شروع کیا گیا جہاں بوڑھے ضعیف والدین کو کہولت خانوں میں جمع کرا دینے کی رسم تھی تاکہ سال کے ایک دن سہی بچے اپنی ماں کو مل لیں، کارڈ بھیج دیں یا فون کر لیں۔ پھر یومِ استاد نکال لیا --- کہ آج کے دن لوگ اپنے استادوں کا احترام بجا لائیں۔ حالانکہ کوئی بھی معاشرہ ہو ہر دن ماں کا دن ہوتا ہے اور اولاد کے شب و روز میں ماں سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح فرمانبردار اور لائق شاگرد کبھی اپنے استادوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ ماں باپ کے بعد سب سے بڑا محسن استاد ہوتا ہے اگر شاگرد بادشاہ بھی بن جائے تو اسے استاد کے احترام میں ہمیشہ کھڑے ہونا چاہئے، جھک کر ملنا چاہئے۔ ان چیزوں کو کیلنڈر پر سجا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا --- ان باتوں کو ہماری تہذیب اور تربیت کا حصہ ہونا چاہئے۔
گذشتہ سال 6 ستمبر کے دن قومی اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا کسی نے دلایا تو رولز سسپینڈ کر کے اس دن کی یاد منانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ اکثر ارکان فوج کو خراج تحسین پیش کرنے سے کترا رہے تھے۔ 1965ءکی جنگ میں ہماری بری، بحری اور ہوائی فوج نے کمال کیا تھا۔ پہلے سکولوں اور کالجوں میں 6 ستمبر کا دن منایا جاتا تھا یہی ایک ادارہ ہے جو منظم بھی ہے اور مضبوط بھی ہے۔ اگر دو تین جرنیل ہوس اقتدار میں مبتلا ہوئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پوری فوج کی افادیت کو نظر انداز کر دیں۔ اسی سال اقبال ڈے بھی اسمبلی کے اندر ہی آ گیا حالانکہ اقبال ڈے کو چُھٹی ہونی چاہئے تھی وگر نہ اسمبلی کی کارروائی روک کر شاعر مشرق پر بات کرنی چاہئے --- چند ارکان کے علاوہ کوئی شخص ذہنی طور پر تیار نہیں تھا کہ وہ علامہ اقبالؒ پر بات کر سکے۔
یہ بھی خیال آتا ہے کہ اتنی بھاری اکثریت سے جیت کر آنے والے ارکان جنہیں بڑے بڑے مناصب اور مراتب سونپے جاتے ہیں وزیر، مشیر اور وزیراعظم بن جاتے ہیں کیا وہ اپنے قومی ہیروﺅں کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ ہر پارٹی کارکن اپنے لیڈر کی آن بان تو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے مگر قائداعظم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا یا جاننا چاہتا۔ انہی اسمبلیوں سے ایسے لوگ اُٹھے ہیں جو پاکستان کا پورا نصاب بدل دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے سارے صوبوں کے مشاہیر نے قابل فخر خدمات انجام دی ہیں ان سب کا ذکر نصاب کی کتابوں میں ہونا چاہئے۔ بہت سارے پرائیویٹ سکولوں میں غیر ملکی نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ وہاں جو باتیں معیوب نہیں ہیں ہمارے ہاں وہ غیر اخلاقی ہیں مگر جب آپ ان کو غیر ملکی زبان میں پڑھائیں گے تو وہ ان کو اسی طرح ذہن میں اتار لیں گے۔ کبھی کبھی یہ سوچ کر خوف آتا ہے کہ یہ بے سمتی ہمیں کہاں لے جائے گی؟
ہماری سوچ کا محور صوبے، علاقے، برادریاں اور ذات پات بنتی جا رہی ہے --- اس پاکستان کے اندر قائداعظم محمد علی جناحؒ سے بڑی شخصیت نہ کوئی پیدا ہوئی نہ پیدا ہو گی۔ اس پاکستان کے جھنڈے سے بڑا کسی پولیٹیکل پارٹی کا جھنڈا نہیں ہو سکتا اور آئین پاکستان سے بڑا منشور کسی پارٹی کا نہیں ہو سکتا۔ لیکن بعض ایسے خودسر اور خود زعم لیڈر بھی پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے جھول چھپانے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کی ذات کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس ملک میں انہیں روکنے والا کوئی نہیں، جس کے منہ میں جو آتا ہے وہ کہہ دیتا ہے۔
اور تو اور بہت سے منہ پھٹ ٹی وی پر آ کر دو قومی نظریہ کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں شاہ رخ خان کا تازہ ترین مضمون پڑھنا چاہئے جس میں درد جھلک رہا ہے --- انہیں تجزیہ نگار آر وہتی کی باتیں سُننی چاہئیں جو کہتی ہے انڈیا میں مسلمان دلت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اُس طرف تو ابھی تک دو قومی نظریہ کی وجہ سے مسلمان تکلیفیں اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان کے بعض نام نہاد دانشور دو قومی نظریہ کی نفی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
جب بارہ ربیع الاول منانے کا دن آئے تو کم از اپنے آپ سے یہ ضرور پوچھئے کہ آپ اسوہ¿ حسنہ کی روح کو سمجھ کر بات کر رہے ہیں اور کیا یہ بات کرنے کے اہل بھی ہیں کہ نہیں .... !
عشق عشق تے ہر کوئی کردا
کر کے نبھاوے کوئی کوئی
مر گئے مر گئے آکھن سارے
مر کے وکھاوے کوئی کوئی



ڈیجیٹل فارمیٹ میں اس خبر کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
Print

No comments:

Post a Comment