پاکستان دنیا کا واحد بدقسمت ملک ہے جہاں پر سیاستدان حساس نوعیت کے قومی معاملات پر بھی سیاست بازی کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جن کیخلاف روزانہ کی بنیاد پر کرپشن کے سکینڈل سامنے آرہے تھے اور وہ سپریم کورٹ کے زیر عتاب تھے انہوں نے اپنی خفت اور ندامت کو کم کرنے کیلئے اچانک سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کردیا جو کھلی بدنیتی پر مبنی تھا حالانکہ جنوبی پنجاب کے عوام صوبے کا مطالبہ ہی نہیں کررہے تھے۔ وفاقی حکومت کو چونکہ اپنی کارکردگی پر اعتماد نہیں تھا لہذا اس نے انتخابات کے دوران جذباتی ماحول پیدا کرنے کیلئے ”سرائیکی کارڈ “ کا شوشہ چھوڑ دیا۔ پانچ سال گزر جانے کے بعد انتخابات کے نزدیک نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑنا بدنیتی کا کھلا ثبوت ہے۔ حکومت کی جانب سے سرائیکی صوبہ کے اعلان اور تحریک کے بعد مسلم لیگ (ن) کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اگر سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتی تو وہ برملا اعلان کرتی کہ موجودہ اسمبلیوں کو نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کیونکہ 2008ءکے انتخابات میں یہ ایشو سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل نہیں تھا لہذا یہ مسئلہ آنے والی منتخب اسمبلیوں پر چھوڑ دیا جائے بصورت دیگر آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے ریفرنڈم کرالیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) ٹریپ میں آگئی اور اس نے انتخابی سیاست کے پیش نظر پنجاب اسمبلی میں صوبہ بہاولپور کی بحالی اور صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی قرارداد پیش کردی جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ قرارداد کے متن کے مطابق وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جو نئے صوبوں کے بارے میں منصفانہ حد بندی، پانی اور وسائل کی تقسیم اور دیگر تنظیمی معاملات کا فیصلہ کرے۔ صدر پاکستان نے سیاسی مصلحتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کی روح کے مطابق غیر جانبدار قومی کمیشن تشکیل دینے کی بجائے قومی اسمبلی کی سپیکر کو ریفرنس بھیج کر پارلیمانی کمیشن تشکیل دینے کی ہدایت کردی۔
قومی اسمبلی کی سپیکر نے ایک ایسا کمیشن تشکیل دے دیا جس میں اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ شامل تھے۔ اس کمیشن کا چیئرمین سینٹر فرحت اللہ بابر کو نامزد کیا گیا جو ہر چند کہ نیک نام شخصیت ہیں مگر وہ صدر پاکستان کے سٹاف میں شامل ہیں۔ اس پارلیمانی کمیشن میں پنجاب اسمبلی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی اور نہ ہی اس میں کوئی ٹیکنو کریٹ شامل تھا جو نئے صوبوں کی تشکیل کا ماہر ہوتا۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرین کو پنجاب کے حصے بخرے کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اس پارلیمانی کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے اقتدار پر فائز ہے اور پنجاب وفاق کا اہم یونٹ ہے۔ جمہوری اصولوں کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کے بائیکاٹ کے بعد پارلیمانی کمیشن کی کاروائی روک دی جانی چاہیئے تھے۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم دونوں کو علم تھا کہ آئین کیمطابق نئے صوبے کی منظوری کیلئے سینٹ ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی دوتہائی اکثریت درکار ہوگی جو پی پی پی کی مخلوط حکومت کو حاصل نہیں ہے مگر اسکے باوجود پارلیمانی کمیشن نے اپنی کاروائی جاری رکھی۔ جس کا واضح مقصد انتخابات میں جنوبی پنجاب کے عوام سے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنا تھا۔ پارلیمانی کمیشن نے جو بل تیار کیا ہے وہ بھی پنجاب اسمبلی کی قرارداد سے کھلا انحراف ہے۔ پنجاب اسمبلی نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب دو صوبوں کے قیام پر اتفاق رائے کا اظہار کیا تھا۔ پارلیمانی کمیشن نے دونوں صوبوں کے اشتراک سے ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ کے نام سے نیا صوبہ بنانے کیلئے آئینی بل تیار کیا ہے۔ مجوزہ صوبے میں میانوالی اور بھکر کے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ان دو اضلاع کو نئے صوبے ”بی جے پی“ میں شامل کردیا گیا۔ جب نیت ہی خراب ہو انجام بھی خراب ہوا کرتا ہے۔ میانوالی اور بھکر کے عوام نے پارلیمانی کمیشن کے فیصلے کیخلاف ہڑتال کردی اور مسلم لیگ (ن) نے اعلان کردیا کہ اگر حکومت نے پارلیمنٹ میں نئے صوبے کا مجوزہ بل پیش کیا تو وہ اس بل میں ترمیم پیش کردیگی کہ پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد کے مطابق دو صوبے یعنی بہاولپور اور جنوبی پنجاب قائم کئے جائیں۔ مسلم لیگ(ن) کے اس اعلان نے حکومتی غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ ہزارہ کے عوام نے ہزارہ صوبہ کیلئے پر جوش تحریک چلائی جس میں کئی جوانوں نے اپنی جانیں بھی قربان کیں اسکے باوجود پارلیمانی کمیشن ہزارہ صوبہ کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہا کیوں کہ حکومت کی اتحادی جماعت اے این پی ہزارہ صوبہ کیخلاف ہے کیا یہ حکومت کا دوہرا معیار نہیں ہے؟ آئی آر آئی کے تازہ سروے کے مطابق جنوبی پنجاب کے 41 فیصد عوام نئے صوبے کیخلاف ہیں جبکہ صرف 16 فیصد اسکے حق میں ہیںمگر اسے صوبہ بنانے کیلئے حکومت بے چین ہے جبکہ ہزارہ جہاں پر عوام صوبہ بنانے کا کھلا مطالبہ کررہے ہیں اس پر حکومت سیاسی مصلحتوں کا شکار ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومتی سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کی بجائے انتخابی کامیابی کیلئے جذباتی نعروں کا سہارا لینے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے مجرمانہ غفلت بلکہ بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔ سپریم کورٹ نے آئین کی اس خلاف ورزی کا نوٹس لیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم صادر کیا مگر کسی صوبائی حکومت نے اس پر عمل نہ کیا۔ یونین کونسل، ٹاﺅن تحصیل اور ضلع میں بلدیاتی مقامی ادارے قائم کرکے ہی عوام کو مقتدر بنایا جاسکتا ہے مگر اس کیلئے چونکہ اختیارات اور وسائل کو ضلعی سطح پر تقسیم کرنا پڑتا ہے لہذا تمام صوبائی حکومتوں نے اختیارات اور صوبائی بجٹ پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کیلئے آئین سے انحراف کیا۔ پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے عمومی طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے مگر نئے صوبے ہرگز لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ تنظیمی بنیادوں پر قائم ہونے چاہئیں۔ آزادی کے وقت چار بڑے بڑے غیر متوازن صوبے اور بلوچستان کا علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ چونکہ ان صوبوں کو انگریز حاکموں نے اپنی حاکمانہ ضروریات کے تحت لسانی بنیادوں پر بنایا ہوا تھا لہذا ان کی ترتیب میں جمہوری اقدار کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان دو حصوں میں منقسم تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا مگر اسکی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا 54 فیصد تھی۔ دوسری طرف مغربی پاکستان تین صوبوں اور چھ دیسی ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں بھی آپس میں آبادی کا کوئی توازن قائم نہیں تھا۔ اُسکے ایک صوبہ پنجاب کی آبادی مغربی پاکستان کی کل آبادی کا 58 فیصد تھی۔ اس طرح آزادی کے وقت پاکستان کا سیاسی نظام مکمل طور پر غیر جمہوری بنیادوں پر استوار تھا۔ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے بعد انگریز حاکموں سے ورثہ میں ملے لسانی بنیادوں پر قائم بڑے بڑے، بے ہنگم، غیر متوازن اور غیر متناسب صوبوں کی تشکیل نو کرکے اُنہیں جمہوری نظام میں ڈھالنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی جس کی بناءپر ہمارے سیاسی نظام میں آج تک توازن قائم نہیں ہوسکا۔ اسکے برعکس آزادی کے فوراََ بعد ہندوستان نے جمہوری نظام کے احیاءاور سیاسی استحکام کی خاطر اپنے 8 صوبوں کو جمہوری تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا اور ان کی تعداد بڑھا کر 47 کردی۔ ایران اور افغانستان نے بھی اپنے صوبوں میں اضافہ کیا۔نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ بچوں کا کھیل نہیں ہے اسے پوری سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے صوبوں کیلئے این ایف سی کا نیا ایوارڈ بھی جاری کرنا پڑیگا جو ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں نئے صوبہ کے قیام کو اپنی انتخابی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں یہ معاملہ نئی منتخب اسمبلیوں پر چھوڑ دیا جائے۔ انتخابات کے بعد قائم ہونیوالی نمائندہ حکومت قومی کمیشن تشکیل دے جس میں غیر جانبدار ماہرین اور صوبوں کے عوامی نمائندے شامل ہوں جو سنجیدہ غور و فکر کے بعد پاکستان بھر میں نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے تجاویز پارلیمنٹ کو پیش کریں۔
No comments:
Post a Comment