Friday, February 1, 2013

Sar-e-Rah on 02-02-2013



02 فروری 2013


فضا میں اڑنے والی کار تکمیل کے قریب۔
انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں‘ امیر طبقہ کو اب ٹریفک کے اژدھام سے بچ نکلے گا،جہاں سرخ بتی دیکھی وہیں سے فضا میں اڈاری مارنا شروع کردی۔ پروٹوکول کی ضرورت رہی نہ ہی غریب لوگوں کے ساتھ اشارے پر کھڑا ہونے کی زحمت ۔یہ کار ہوائی جہاز تو نہیں بن سکے گی بلکہ ”جہاج“ بن سکے گی کیونکہ اس کی بلندی صرف 10فٹ تک ہوگی، یہ سین پہلے صرف فلموں میں دیکھا جاتا رہا ہے ہم تو اب بھی اسکو ٹی وی سکرین پر ہی دیکھیں گے....
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ہماری سڑکوں کی حالت تو اپنا نوحہ خود ہی پڑھ رہی ہے اس کے گردونواح میں ڈین کے بالوں کی طرح پھیلی ہوئی بجلی اور ٹیلی فون کی تاریں،فلائنگ کاروں کیلئے کیسے ممکن ہوگا کہ وہ ان سڑکوں پر آکر کچھ کرتب دکھا سکیں ان سڑکوں پر تو صرف بند ر ہی ناچ سکتے ہیں۔دل پشوری کرنے کیلئے جوشیلے نوجوان بھی کبھی کبھی موت کے کرتب کرتے ہیں،ون ویلنگ کرکے حضرت عزرائیل کو آنے کی خود دعوت دیتے ہیں،ہماری سڑکوںپر اسقدر رش ہوتا ہے کہ انسان پیدل چل کر منزل پر جلد پہنچ جاتا ہے اگر راستے میں کوئی جلوس نکلا ہوا ہو تو پھر آپکی گاڑی سے پہلے چیونٹی منزل پر پہنچ جائیگی اور تو اور ایمبولینس بھی ہوٹر مارتے تنگ آجاتی ہے لیکن ہڑتالیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
٭....٭....٭....٭
گیمبیا میں 4روز کام 3دن چھٹی۔
جناب 3دن کام اور چار دن چھٹی کا اعلان کردیں کیونکہ 4دن کام کرکے تو بیچارے عوام تھک جاتے ہونگے ، ہمارے قائداعظمؒنے کام کام اورکام پر زور دیا تھا لیکن گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع نے آرام آرام اور بس آرام کا ماٹو اپنی قوم کو پیش لگادیا ہے ۔سرکاری ملازمین تو اس اعلان کے بعد خوشی کے شادیانے بجارہے ہونگے لیکن مزدور طبقہ تو اس اعلان کے بعد مزید پستی میں چلا جائیگا۔گیمبیا کے صدر بھی بادشاہ مزاج ہی نکلے جس چیز کا دھیان آیا وہی کردیا۔لیکن انہوں نے ایک زیادتی کی‘ چار دن آرام اور تین دن کام ہونا چاہیے تھا‘ یہ مزدور طبقہ کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس کا ازالہ ہونا چاہیے یعنی چار دن آرام تین دن کام۔ کیا خیال ہے صدر محترم زرداری صاحب؟
زمانہ قدیم کا ایک واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کسی جنگی مہم پر جارہا تھا کہ رات بڑھنے پر ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا قافلے میں شامل ایک ہاتھی کسی کھائی میں گرا تو اس کی آواز سن کر بادشاہ نے پوچھا یہ کس کی آواز آئی ہے ،وزیرنے بتایا کہ ہاتھی کے گرنے کی آواز تھی ،بادشاہ نے کہا یار بڑی سریلی آواز تھی لہٰذا ایک اور ہاتھی گرا دیں ،ایک ایک کرتے صبح تک سارے ہاتھی گرا دئیے گئے اور صبح ہونے پر جنگی قافلہ خالی ہاتھ واپس گھر چلا آیا،لیکن بادشاہ ہاتھیوں کے کراہنے کی آوازوں سے لطف اندوز ہوتا رہا،ہمارے حکمران بھی آج ہمارے رونے کی آوازوں سے سرور لیکر اپنی حکمرانی پوری اور ہمارے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں اور جو بھی مزاج یار میں آئے وہ کرکے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔لوگ اس قدر ڈیپریشن کا شکار ہوچکے ہیں کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے چھلکا جارہا ہے اور گرج چمک کیساتھ اشک باری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اشکوں کا قطرہ قطرہ ملکر اگر دریا بن گیا تو سب کچھ بہا کر لیجائے گا اس لئے مظلوم کی آہوں سے بچنے کی بھی کوشش کریں۔
٭....٭....٭....٭
شفیق عرف جھلا پہلوان کو 5لاکھ روپے اور ملازمت دینے کا اعلان۔
جھلا پہلوان اپنے اعزازات ریڑھی پر سجا کر گوجرانوالہ کی گلیوں میں مٹر گشت نہ کرتا تو یقین جانئے 5لاکھ ملتا نہ ہی ملازمت دینے کا دلاسہ دیاجاتا، ہمارے ہاں ایک روایت چل نکلی ہے کہ جو آگے بڑھ کر مینا تھام لے اس کا ہے، یہاں پر حق ملتا نہیں بلکہ چھیننا پڑتا ہے....
جھلے نے صدائے احتجاج لگائی اور کہا....
ساڈا حق ایتھے رکھ
مانگا تو مل گیا اس لئے عوام جب تک حق لینے نکلیں گے نہیں تب تلک انکی دہلیز پر کوئی انہیں پھول پیش کرنے نہیں آئیگا،ماں اپنے بچوں سے بہت محبت کرتی ہے لیکن وہ بھی اس وقت تک انہیں دودھ نہیں دیتی جب تک وہ روتا نہیں،اس لئے عوام اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے گھروں سے نکل کر نیک صالح اور محب وطن لوگوں کو منتخب کرنے کیلئے ابھی سے اپنا ذہن بنالیں ۔پنجابی کا اکھان ہے....
سیاستداناں دی یاری تے شیردی سواری
کوئی بچیاں دا کھیڈ نئیں
اگر آپ انہیں ہاتھ پکڑائیں تو یہ پورا بازو کھاجاتے ہیں اس لئے آپ ان پر اعتماد مت کریں بلکہ پہلے اپنے آپکو اسقدر طاقتور بنالیں کہ آپکو انصاف اور حق آپکے گھر پرملے پھر گاڑی چلے گی۔
٭....٭....٭....٭
چھانگا مانگا : دو منہ، 4 آنکھوں والے عجیب الخلقت بکری کے بچے کی پیدائش ۔
شُکر کریں بغیر منہ اور سر کے پیدا نہیں ہوا اگر کبھی ایسے ہو جاتا تو پھر پنجابی کا یہ ا کھان درست ثابت ہو جانا تھا ....ع
”منہ نہ متھا جِن پہاڑوں لتھا“
ایسے عجیب الخلقت جانور کو دیکھنے کیلئے تو اہل خانہ کو باقاعدہ ٹکٹ لگانی پڑتی۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے کرشمے اپنے بندوں پر کھولتا رہتا ہے تاکہ وہ خدا کی قدرت کو پہچاننے میں کسی شک و شبہ میں نہ پڑیں۔ جس طرح ”وڈے سراں دیاں وڈیاں پگاں“ اسی طرح بڑی ذات کی بڑی نشانیاں ہوتی ہیں۔ ہر انسان کو اللہ سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ رزق کے ساتھ صحت دے، اولاد دے تو صحیح سلامت دے، عمر دے تو تندرسی عطا فرما۔ والدین کیلئے معذور بچے سب سے پیارے ہوتے ہیں‘ لیکن اس معاشرے میں محتاجی کی زندگی سے اللہ بچائے!




No comments:

Post a Comment