Saturday, February 2, 2013

Khalid Mehmood Hashmi column on 02-02-2013 on Good Governance


کالم نگار | خالد محمود ہاشمی


بارہ سولہ گھنٹے کی یومیہ لوڈشیڈنگ سے اہل وطن کی زندگی آدھی رہ گئی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی رہی کہ ہمیں کوئی کامل سیاسی رہنما نصیب نہ ہو سکا ایسا رہنما جس میں قوم کا احساس زیاں ہوتا کہ بجلی کے نہ ہونے سے تعلیمی اور معاشی نقصان کس قدر ہوا ہے ملک یوں ہی ترقی نہیں کرتے اذان فجر سن کر بیدار ہونے والے وضو اور نماز کی نیت لے کر اٹھتے ہیں لیکن عین اسی وقت بجلی ہوتی ہے نہ نلوں میں وضو کےلئے پانی ایسے نمازی تلملا اٹھتے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صاحبان اختیار کم از کم نمازوں کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا حکم دے کر نمازیوں پر تو احسان کر دیں حکمرانوں کا لونگ مارچ دھرنا احتجاج اور واویلا تو کچھ نہیں بگاڑ سکے لیکن انصاف کا دن ضرور آئیگا جب انہیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا پڑیگا۔ صدر زرداری کا سارا عہد صدارت ایوان صدر کے فیصلوں، بلاول ہا¶س یا بیرونی دوروں میں گزر گیا انہیں مصیبتوں اور دکھوں کے مارے عوام سے ٹی وی پر خطاب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اگر انکی حکومت نے عوام پر پانچ سال میں کوئی احسانات کئے ہیں تو براہ کرم قوم سے خطاب کریں اور ان احسانات کی تفصیل بتا دیں۔ نئے صوبے بنانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ آئی جی بدلنے سے پولیس کا قبلہ تبدیل نہیں ہوتا۔ تھانیدار کے تبادلے سے تھانے کا کیا بگڑتا ہے۔ انسانوں کے ریوں میں تبدیلی آنے سے نظام بدلتا ہے۔ خزانہ خالی ہے تو کوئی بھی وزیر خزانہ جادو کی چھڑی سے تو خزانہ نہیں بھر سکتا پانچ سال سے ملک پر طرح طرح کے عذاب مسلط ہیں دہشتگردی اور لوڈشیڈنگ دہری آگ ہے جس میں اٹھارہ انیس کروڑ عوام جل رہے ہیں۔ اس آگ کو بجھانے کےلئے کوئی فائر بریگیڈ میسر نہیں آگ بجھانے کی کوشش نہ ہو تو یہ پھیلتی چلی جاتی ہے اور ہر شے بھسم ہوتی جاتی ہے۔ 9/11ہمارے لئے قیامت بن کر ٹوٹا تھا حکومت کے جاتے جاتے بلیم گیم میں تیزی آ رہی ہے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا ہے فنانشل ڈسپلن کی صوبوں نے ذرا پابندی نہیں کی۔ وفاقی حکومت کی ایک روپے کی آمدنی میں سے 70پیسے صوبوں کو دیئے جا رہے ہیں ان 70پیسوں کو اللے تللے خرچ کیا جاتا رہا ہے اس وقت ملک کے 33فیصد لوگ یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم آمدنی پر زندگی گزار رہے ہیں۔ 60فیصد لوگوں کےلئے یومیہ دو ڈالر میسر ہیں۔ موجودہ حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملا ورنہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔ بھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومتوں کو بھی طالع آزما¶ں نے چلتا کیا افسوس تو اس بات کا ہے کہ پانچ سال میں حکومت کچھ بھی ڈیلور نہیں کر سکی۔ عوام پر طرح طرح کے ٹیکسوں اور سرچارجز کا بوجھ ڈالتی رہی۔ گرانی کا گراف بلند ہوتا گیا۔ غربت کے ہاتھوں بیوی بچوں سمیت خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے صارفین کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ گندم کے وافر ذخائر کے باوجود آٹا کمیاب بھی ہے اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے کسی معاملے میں بھی حکومت کے کانوں پر ذرا سی جوں نہیں رینگتی۔ اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر ہے۔ رواں مالی سال میں آئی ایم ایف کو 1.6ارب ڈالر کی اقساط ادا کی جانی ہیں۔ حکومت کے پاس 8.7ارب ڈالر کے ذخائر صرف دو ماہ کی درآمدات کو پورا کر پائیں گے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت ریکارڈ نچلی سطح پر آ چکی ہے۔ 90دنوں کیلئے آنے والی نگران حکومت عوام کو کسی بھی طرح کام ریلیف نہیں دے پائے گی۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں انتخابات جیتنے پر ہیں۔ اکانومی یتیمی کی حالت میں ہے۔ بجلی کا نہ ہونا مسئلہ نمبر ون ہے آنے والی حکومت ملک کو لوڈشیڈنگ سے کیسے نجات دلائے گی۔ گڈ اکنامک گورننس دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ 82ارب کی کرپشن میں ملوث توقیر صادق جیسے مگر مچھ اسی حکومت کے بطن سے پیدا ہوئے۔ انتخابی اکھاڑے میں پی پی پی اور ن لیگ ہی بڑے پہلوان ہیں یہ موروثی اکھاڑہ ہے۔ گورننس کرپشن کے ہاتھوں پچھاڑی گئی ہے۔ سیاسی ایجنڈے پر تعلیم اور صحت کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ حکومتی بلی نے ہائر ایجوکیشن کمشن کو چوہے کی طرح سمجھ رکھا ہے۔ بجٹ کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں تو ایک کا نام قرضوں کی واپسی تو دوسرے کا نام پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ہے۔ 873ارب روپے PSDP کےلئے مختص ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے اس رقم میں سے 50ارب اپنی ثواب دید کی نذر کر دیئے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے 30کروڑ اپنی ثواب دید پر رکھے پورا ملک ہی صاحبان اقتدار کی ثوابدید پر چل رہا ہے۔ پی آئی اے کا خسارہ 2.7ارب سالانہ ہے۔ دنیا بھر کی کسی ائر لائن کو کبھی اتنے بھاری خسارہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سیمنٹ، شوگر، سٹیل، رینٹل پاور، آٹا ہر طرف اجارہ داریاں ہیں۔ امیر ہر طرف متحد دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو جوں کا توں نظام بہت سوٹ کر رہا ہے۔ کرپشن پر مبنی نظام لچکدار اور ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے ہر چیز پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ کھا¶ اور کھانے دو والی گورننس ہی گڈ گورننس کہلاتی ہے۔ قرضہ 15کھرب روپے ہو چکا ہے۔ 6.1 کھرب تو اغیار کو واجب الادا ہیں گھر والوں سے 8.2 کھرب ادھار لے چکے ہیں۔ یہ سارا بینکوں کا پیسہ ہے۔ عوام کی امانتیں ہوتی ہیں اکانومی کا قاعدہ ہر ہوشمند کو ازبر ہو چکا ہے۔ ٹیکسوں سے آمدنی مالی سال 08ءمیں 1.007 کھرب روپے تھی جو مالی سال 12ءمیں بڑھ کر 1.883 کھرب ہو گئی۔ حکومت کے خرچے پھر بھی پورے نہیں ہو رہے یوں لگتا ہے بینکوں کے ڈیپازٹس حکومت کےلئے ہیں۔ موجودہ مالی سال کے 7ماہ میں کمپنیوں نے بنکوں سے 52ارب ادھار لئے جبکہ پچھلے سال کے پہلے 7ماہ میں کمپنیوں نے 190ارب روپے ادھار لئے تھے۔ مشرف دور کے اختتام پر ملک میں زیر گردش نوٹوں کی تعداد 100 سے 115ارب سالانہ تھی۔ اب 250ارب سے زیادہ ہے۔ چار سال میں درآمدات 10ارب ڈالر سے بڑھ کر 44ارب ڈالر ہو گئی ہیں جبکہ برآمدات 5ارب ڈالر سے بڑھ کر 24ارب ڈالر ہوئی ہیں۔ انڈسٹری کے پاس پیداواری گنجائش ہے لیکن بجلی، گیس میسر نہیں۔ ایک تندور پر بیک وقت 20روٹیاں لگ سکتی ہیں لیکن گیس کے کم پریشر کے باعث روٹیاں تیار ہونے میں دیر لگ رہی ہے۔ ہماری کھوئی ہوئی زندگی کی بحالی کےلئے کھوئی ہوئی بجلی اور گیس کی بحالی ضروری ہے۔

No comments:

Post a Comment