Saturday, February 2, 2013

Yousaf Raza Gilani Former Prime Minister of Pakistan column on 01-02-2013 on People's Party




پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے شروع سے ہی خواتین کے سیاست میں حصہ لینے کے حق کی پرزور حمایت کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں بیگم نسیم جہاں کو رُکن بنایا گیا۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے زیرِ قیادت جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمہ کی اولین پاکستانی تحریک میں لاہور کی بیگم آباد احمد خاں اور مسز آئمہ حسن نے ہراول دستہ میںشامل ہوکربڑی دلیری اور بہادری سے سیاسی جدوجہد میںانتہائی نمایاں کردار ادا کیا۔
1971ءمیں زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد قائد عوام چیئرمین بھٹو نے خواتین کو اہم عہدوں پر فائز کرنے کی روایت کی بنیاد رکھی۔ بیگم رعنا لیاقت علی کو سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈاکٹر اشرف عباسی کو قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر اور ڈاکٹر کنیز یوسف کو قائداعظم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بنایا گیا۔ قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کئے گئے۔ نرگس نعیم سندھو ( لائل پور، موجودہ فیصل آباد)، نفیسہ فاروقی (جھنگ) سمیعہ عثمان (گجرات) کو سینیٹر اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والی بلقیس حبیب اللہ کو پہلے پنجاب اسمبلی اور بعد ازاں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروایا گیا۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ءکے دستور میں آرٹیکل 25 کے تحت خواتین کو معاشرہ میں مساوی حیثیت اورتمام بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دی۔ آرٹیکل 34 میں زندگی اور سماج کے ہر شعبے میں خواتین کی بھرپور شرکت کی حمایت کی گئی۔ دستور کی ان دفعات نے پاکستانی خواتین کے روشن مستقبل کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی جس پر انکی ترقی، فلاح و بہبود اور مساوی حقوق کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ جب بھی پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے مثبت اقدامات کئے گئے اور سیاسی اور معاشرتی سطح پر انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے کوششیں کی گئیں اگر میں ان تمام اقدامات کا ذکر کروں تو یہ آرٹیکل بہت طویل ہو جائیگا۔ میں صرف انتہائی اہم باتوں کا تذکرہ کروں گا۔
1975ءمیں میکسیکو میں ہونیوالی خواتین کی پہلی کانفرنس میں بیگم نصرت بھٹو نے پاکستان کی نمائندگی کی اور مستقبل میں پاکستانی خواتین کے کردار کے بارے میں ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے 1970ءکے عام انتخابات میں خواتین کے بھرپور کردار کو دیکھتے ہوئے پارٹی میں شعبہ¿ خواتین کی بنیاد رکھی جس کی وہ اولین سربراہ تھیں۔ چیئرمین بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو پاکستان کے سیاسی مستقبل میں خواتین کا ایک اہم کردار دیکھنا چاہتے تھے۔ انکے اس خواب کو انکی دلیر اور بہادربیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے شرمندہ ¿ تعبیر کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد چیئرمین بھٹو کی شہادت کے بعد اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کیلئے جس بہادری سے سیاسی جدوجہد کی قیادت کی وہ ہماری تاریخ کا لافانی باب ہے۔ حبیب جالب مرحوم نے بی بی شہید کیلئے اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ ”ڈرتے ہیں بندوقوں والے، ایک نہتی لڑکی سے“
1988ءکے انتخابات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو صرف 35 سال کی عمر میں عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ جنرل ضیاالحق کے انسانیت دشمن اور خواتین مخالف دور کے بعد ایک خاتون کا وزیراعظم بننا ملک بھر کی خواتین کیلئے ہوا کے ایک تازہ جھونکے کے مترادف تھا۔ انکے دور میں خواتین کو معاشرہ کا کارآمد اور مفید حصہ بنانے کیلئے بے شمار اقدامات کئے گئے جس میں فرسٹ وویمن بینک کا قیام ۔ خواتین کیلئے الگ پولیس اسٹیشن، منسٹری آف وویمن ڈویلپمنٹ، بیجنگ کانفرنس میں تاریخی کردار اور CEDAW پر دستخط شامل ہیں۔ چیئرمین بھٹو نے ڈی ایم جی سروسز خواتین کیلئے کھولی تھیں اور بی بی نے ہائی کورٹ میں پہلی بار خاتون جج کا تقرر کیا۔ ان اقدامات نے خواتین کیلئے پاکستان میں ایک نئی راہ کا تعین کیا اور انہیں برابر کے شہری ہونے کا یقین دلایا۔
مارچ 2008 ءمیں پاکستان ایک کٹھن دور سے گزر رہا تھا۔ پے در پے مارشل لا، عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے ملک کمزور ہوچکا تھا۔ بی بی کی شہادت کے صدمے اور اتنے بڑے قومی نقصان سے نکلنا آسان نہیں تھا۔ جب مجھے وزیراعظم منتخب کیا گیا تو میں نے بی بی کے فلسفے کو سامنے رکھا۔ خواتین کی ترقی اور فلاح و بہبود میرا مشن بن گیا۔ سیاست میں خواتین کے کردار کو موئثربنانے کیلئے صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا۔ محترمہ فہمیدہ مرزا کو پہلی خاتون سپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے بحیثیت وزیراعظم قومی اسمبلی میں وویمن کو کس (WCP) بنانے کے عمل میں پورا ساتھ دیا۔ ویمن ”کوکس“ کا قیام اور خواتین کے مسائل کے حل کیلئے باہمی رضامندی سے فیصلے اور انکی ترقی کیلئے مشاورت کی جاتی رہی۔ قومی اسمبلی میں ہی WCP کا دفتر قائم کیا گیا۔ میں نے ہمیشہ یہی کہاکہ خواتین میرا حلقہ¿ انتخاب ہیں اور میں انکی ترقی کیلئے ہر ممکن اقدام کرنے کو تیار ہوں۔ قومی اسمبلی میں 72 خواتین ممبران آئی تھیں‘ جنہیں مختلف کمیٹیوں میں نہ صرف شامل کیا گیا بلکہ ان کو کئی کمیٹیوں کی سربراہی بھی دی گئی۔
میری حکومت کا ایک اہم کارنامہ قومی کمیشن برائے حیثیت خواتین (NCSW) کو مکمل طور پر بااختیار بنانا ہے۔ یہ شہید بی بی کا وژن تھا جسے میں نے پایہ¿ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ کمیشن 2000ءمیں ایک آرڈیننس کے ذریعے بنایا گیا تھا اور منسٹر آف ویمن ڈیویلپمنٹ کے زیرِ نگرانی کام کر رہا تھا۔ خواتین کا مطالبہ تھا کہ اس کمیشن کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح مکمل خود مختاری دی جائے۔ میں نے جو کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کی چیئرپرسن انیس ہارون تھیں۔ میں نے اس کمیشن کو خودمختار ادارہ بنانے میں پورا تعاون کیا اور قومی اسمبلی سے قانون منظور کروایا۔ 18ویں ترمیم کے بعد منسٹری آف ویمن ڈیویلپمنٹ تحلیل کردی گئی اور اب قومی کمیشن ہی پالیسی اور قانون سازی میں خواتین کے حقوق کا محافظ وفاقی ادارہ ہے۔ خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے پہلی بار خاتون محتسب مسرت ہلالی ایڈووکیٹ کا تقرر کیا گیا۔
عورتوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق بہت سے قوانین میرے دورِ حکومت میں بنے ہیں اور یہ تمام قوانین متفقہ طور پر قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوئے ہیں۔ خواتین کیلئے جوقانون منظور ہوئے ان میں، Acid crimes, protection against harasment, women in distress, Anti women practices act اور خودمختار خواتین کمیشن کا قانون شامل ہے۔ گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔ لیکن بد قسمتی سے یہ بل سینٹ میں کچھ ممبران کے اختلاف کا شکار ہوگیا۔ میں نے اس میں بھی دلچسپی لی اور یاسمین رحمان کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیٹی بنادی گئی اس کمیٹی نے اپنا کام تقریباً مکمل کرلیا تھا مگر اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے اسکی تکمیل نہ ہوسکی، اب ایک اور مسودہ زیر غور ہے اور میری خواہش ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی سے گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل بھی منظور ہوجائے۔ میں نے اپنی بیٹی فضاءبتول گیلانی کو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے کیلئے متعین کیا تھا وہ ان امور میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لاءکے دوران 12 فروری کوعوام دوست اور جمہوریت پسند خواتین نے قانونِ شہادت کیخلاف لاہور میں مظاہرہ کیا تھا۔ پر امن خواتین کو بدترین پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 2009 ءمیں قومی کمیشن برائے حیثیت نسواں نے پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر لاہور کی خواتین کی اس مزاحمتی تحریک کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد کیا۔ میں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ میری وزارت عظمےٰ کے دوران ہر سال 8 مارچ بین الاقوامی یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا۔زراعت ایک اہم شعبہ ہے جس میں دیہی خواتین کی اکثریت شامل ہے۔ میرے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں ہاری خواتین میں زمین تقسیم کی اور مالکانہ حقوق دیئے۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی قدم ہے۔ امید ہے کہ دوسرے صوبے بھی ایسے ہی اقدامات کرینگے۔ قومی کمیشن کی سفارش پر میری حکومت نے 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کا دن قرار دیا۔ خواتین کی معاشی حالت بہتر بنانے، انہیں معاشی طور پراپنے پا¶ں پر کھڑا ہونے اور باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا اجراءکیا گیا جس سے لاکھوں خواتین فیضیاب ہورہی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک اس پروگرام کو بطور”رول ماڈل“ اپنانے کے خواہاں ہیں۔
میں جانتا ہوں کہ اب بھی خواتین کے بے انتہا مسائل ایسے ہیں جن کا حل سماجی اور معاشرتی روایات کے بدلنے، تعلیم اور روشن خیالی کے فروغ سے ہی ممکن ہے۔ کاروکاری، کم عمری کی شادی، وٹہ سٹہ، ونی جیسی رسمیں فرسودہ نظام کی باقیات ہیں۔ ہمیں یہ سب بدلنا ہوگا تاکہ خواتین کو پاکستان میں ان کا جائز مقام ملے اور انکی سماجی اور معاشرتی حیثیت مستحکم ہو۔




ڈیجیٹل فارمیٹ میں اس خبر کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
Print

No comments:

Post a Comment